Thursday, October 30, 2014

میرا لیڈر کیسا ہونا چاہیے - What Kind of Leader I want

آج میں اپنے ایک دوست اور جماعت کے بھایی واقر کی ایک تحریر آپکے ساتھ شیر کرنا چاہتا ہوں جس میں وہ اپنے لیڈر سے کیا ڈیمانڈ کرتے ہیں اسکے بارے میں اظہارخیال کیا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ایک بھایی نے انکی اس آرزو پر ایک سوال اٹھایا اسکا جواب میں خود دوں گا تو پہلے وقار بھایی کا اپنے لیڈر کے بارے میں خاکہ سنیے :

اسلام و علیکم!

آج گلو بٹ کو گیارہ سال کی قید ہو گئی مبارک ہو

کچھ لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ صرف گاڑی توڑنے پر گیارہ سال قید اور اتنی جلدی فیصلہ لیکن چودہ انسانوں کے قتل کا فیصلہ تو اس سے بھی جلدی آنا چاہیے تھا اور مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے تھی لیکن کیا ہوا؟
یہاں ہم سارا ملبہ عوام اور نظام پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے، گلو بٹ اسی ملک کا شہری ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ شائد گیارہ ماہ بھی جیل میں نہ گزارے


جب لوگ سیاسی لوگوں کو بچانے میں مارے جاتے ہیں تو اس بات کے قطع نظر کہ وہ شہید ہیں یا کیا ہیں، انصاف کے طلبگار ضرور ہوتے ہیں لیکن انصاف ملتا نہیں، بس کارکنان کی شہادت کو سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا، ہم ان کے قاتلوں کی گرفتاری تک سکون سے نہیں بیٹھیں گے کے گرم گرم جملے سننے کو ملیں گے اور چند دنوں یا کچھ عرصے بعد سب بھول بھال گیا
میں کراچی میں سیکورٹی کی جاب کرتا تھا تو میں جب اسکارٹ جاتا تھا تو میرے پاس دس گولیاں ہوتی تھیں میں اپنی کمپنی انچارج کو کہتا، سر گولیاں زیادہ دیں میرے ساتھ افسر 20، 25 ہوتے ہیں کوئی حملہ ہو گیا تو میں کیسے دفاع کروں گا تو جواب آتا تھا کہ دیکھو تمہیں افسروں کی نہیں جس بس میں تم جاتے ہو اس کی حفاظت کے لیئے رکھا جاتا ہے، میں نے سوال کیا ایک افسر لاکھوں کی تنخواہ لیتا ہے قیمتی شخص ہے لیکن آپ کو چند لاکھ کی گاڑی کی پڑی ہے اور میری انہی باتوں کی وجہ سے مجھے نکال دیا گیا، ہم انسانوں پر گاڑیوں کو فوقیت دینے والے لوگ ہیں
جیسے گلو بٹ کسی کا غلام ہے ویسے ہی وہ چودہ مرنے والے بھی کسی کے غلام ہیں بس فرق یہ ہے کہ انہوں نے صرف ایک گلو کو سزا کروا کر سب کو بچا لیا ہے اور یہ چودہ معصوموں کا اصل مقدمہ صرف ڈرپوک، اور جلد باز لیڈر کی وجہ سے ہار گئے، جب آپ خود کینٹینر میں ہوں گے اور عام لوگ سڑک پر تو سیکورٹی آپ کا حق ہے آپ کی عوام کا نہیں اور افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ حق عوام ہی ان کو دیتی ہے لیکن ان سے سوال کرنے کی طاقت نہیں رکھتی، میری خواہش ہے کہ کوئی ایسا آئے جو عوام کو سمجھا سکے کہ تمہارا لیڈر تو وہ ہے جو خود کھائے وہ تمہیں کھلائے اس کی تنخواہ ایک مزدور سے زیادہ نہ ہو وہ اگر ایک چادر عام آدمی کو دیتا ہے تو خود بھی ایک چادر لے نہ کہ اپنے حق سے تجاوز کرے، نظام کو نہیں برے لوگوں کو روئیں جن کی وجہ سے یہ نظام مضبوط ہوتا ہے اور عوام ان برے لوگوں کو جاننے کے باوجود ان کے منہ پر بولنے کی جرات نہیں رکھتی۔

اس پر ہمارے ایک دوست سلیم خان صاحب نے ایک سوال اٹھایا کہ
آپ خوابوں کی دنیا سے نکل کر اصلی دنیا میں آ جاییں پلیز - ویسے اگر ایسا ہو جایے تو وطن عزیز بہت ہی بہتر طریقے سے چلے گا
میرا انکے لیے جواب یہ ہیکہ - 

سلیم بھایی جو خواب نہیں دیکھتا وہ جمود کا شکار ہوتا ہے اور جمود کا شکار صرف اور صرف انسان کو کولہو کا بیل بناتا ہے اشرف المخلوقات نہیں - آج انسان ہواوں میں اڑتا پھرتا ہے مگر ایک وقت تھا جب ایسا خواب دیکھنے والوں کو پاگل کہا جاتا تھا آج انسان ہوا کے دوش پر دنیا کے ایک سے سے دوسرے سرے پر موجود اپنے پیاروں سے ایسے بات کرتا ہے 
جیسے وہ سامنے بیٹھا ہو مگر کبھی ان خوابوں کو دیکھنے والوں کو بھی پاگل کہا جاتا تھا-


 جس خواب کی بات وقار بھایی نے کی وہ خواب تو آج سے چودہ سو سال پہلے حقیقت کا روب دھار چکا ہے آج تو ہمیں اسکے احیا کی سعی کرنی ہے - میرا لیڈر تو جنگ میں سب سے آگے ہو کر لڑتا تھا اور اپنے دندان مبارک شہید کرواکر بھی اف نہیں کرتا تھا - وہ خود پیٹ پر پہلے پتھر باندھتا تھا بعد میں اپنے ماننے والے کو کہتا تھا - میرا تو خلیفہ ایسا تھا جو مسجد کی زمیں پر سوتا تھا بنا کسی تکیے کے - میرا خلیفہ میرا لیڈر تو اونٹ پر سواری بھی اپنے غلام کے ساتھ برابری کی بنیاد پر کرتا تھا 
- ہمارے لیڈر کے کرتے پر چودہ پیوند لگے ہوتے تھے حالانکہ وہ قیصر و کسری کا فاتح تھا



تو بھایی میرے خواب نہیں ہم تو اصل حقیقت کی بات کرتے ہیں جہاں انسان انسان کے برابر ہوتا ہے اور سب کے لیے قانون یکساں تھا اور لوگ عوام نہیں بلکہ حاکم تھے

‫‏فخرجماعت اسلامی - Proud to be Member of Jamat-e-Islami


...میرے بہت سارے دوست جو کو مختلف جماتوں میں ہیں وہ بڑے فخر کے ساتھ اپنی پارٹی کے بارے میں کہتے ہیں کہ:
ہم لوگ تو ووٹ نواز شریف کو دیتے ہیں چاہے وہ کوئی کھمبا کھڑا کر دے
ہم لوگ تو ووٹ بھٹو کو دیتے ہیں چاہے وہ کوئی کھمبا کھڑا کر دے
ہم لوگ تو ووٹ عمران خان کو دیتے ہیں چاہے وہ کوئی کھمبا کھڑا کر دے

کب تک ہم یہ الفاظ ادا کرتے رہیں گے، ہماری غلامانہ سوچ کب تبدیل ہو گی

الحمدللہ ہم لوگ ووٹ کسی مولانا مودودی، کسی قاضی حسین احمد کسی منور حسن یا کسی سراج الحق کو نہیں دیتے ہم ووٹ 
اس کے نظریے کو دیتے ہیں ہم ووٹ اس شخص کو دیتے ہیں جو ہماری فلاح و بہبود کا سوچے، جس کو ہم اپنی مرضی سے کھڑا کریں نہ کہ وہ وڈیرا یا زبردستی کا میرے ووٹ کا امیدوار نہ ہو، جو ہمارے ساتھ اٹھے بیٹھے کھائے، جو ہم جیسا ہو جو ہمارا خادم ، غلام ہو ہم اس کے نہ ہو،

پہلی بات یہ کہ جماعت اسلامی نے کبھی کوئی غلط امیدوار کھڑا نہیں کیا لیکن اگر خدانخواستہ جماعت اسلامی کسی وجہ سے
 ایسا کر بھی لے تو جماعت اسلامی کے کارکنان ہی جان کو آ جاتےہیں اس کو کہتے ہیں، سیاسی، سماجی اور معاشرتی تربیت جو ہمیں الحمدللہ جماعت اسلامی سے ملی 

یہ بات فخر سے کہی جا سکتی ہے کہ جماعت اسلامی چاہے ووٹ کم لے مگر کوالٹی میں جماعت اسلامی کا کوئی جماعت مقابلہ نہیں کر سکتی اگر کوئی ہے تو سامنے آئے

Tuesday, October 28, 2014

اسلام آباد کے لوگ اب دعاوں سے دھرنے والوں کو بھگانے کی کوشش کرنے لگے

اسلام آباد کے لوگ ان نام نہاد دھرنوں سے تنگ آچکے ہیں جو کہ نہ صرف اس شہر کہ حسن کو گندہ کر رہے ہیں بلکہ پاکستان کی اکانومی، چہرے اور وجود کے داغدار کر رہے ہیں - اور یہ عالم ہے کہ حکمرانوں اور انتظامیہ سے مایوس ہونے کے بعد اب رب زوالجلال کے سامنے گڑ گڑا کر دعاییں مانگنے پر مجبور ہو چکے ہیں - آپ سب لوگوں سے امید ہے کہ آپ اسلام آباد کے لوگوں کے اس دکھ اور درد میں برابر کے شریک ہونگے ان کی اس فریاد کو آگے شیر کر کے 





My Political Affiliations - میری سیاسی وابستگی کا سفر


مجھےآپ لوٹا کہہ سکتے ہیں جب سکول میں آٹھویں کلاس میں پہنچے تو بے نظیر کے دیوانے تھے اور جیے بھٹو کا ورد کرتے تھے تھوڑا سا شعور آیا تو میاں صاحب کے میگا پروجیکٹس نے ان کی طرف مایل کیا کیونکہ انکے دور میں سرمایہ کاری کا طوفان سا بپا ہوگیا تھا اور ہر طرف ڈویلپمنٹ نظر آ رہی تھی لہزا یہی بہتر لگا کہ مسلم لیگ نواز اچھی جماعت ہے 

اسکے بعد مشرف نے جمپ ماری اور احتساب احتساب کا نعرہ تھا اور ایک شوروغوغا مچا ہوا تھا ہر چور کو الٹا لٹکانے کی باتیں ہو رہیں تھی مگر ایک فون کال پر جس طرح وہ لیٹا امریکہ کے آگے اس سے نفرت بھی اتنی ہی شدید ہو گیی - ایسے میں عمران خان کے انصاف کے نعرے لگنا شروع ہویے تو اس  پر جھوم اٹھے اور دو سو زیادہ کالم اس کے عقیدت میں لکھ ڈالے اور اس وقت لوگوں سے لڑے جب لوگ کہتے تھے کہ اسکو تو اپنی سیٹ ہی مل جایےتو غنیمت جاننا اور میں کہتا تھا تم لوگ تبدیلی نہیں چاہتے تم چاہتے ہو کہ پاکستان انہی نکمے اور چوروں کے ہاتھ میں ہی رہے مگر پھر عمران خان نے ہیلا یوٹرن لیا اور مشرف کی باقیات نے تحریک انصاف جواین کرنا شروع کر دیا اور عمران نے ان کو ویلکم کرنا شروع کر دیا - میں نے اسلام آباد میں پارٹی میٹنگ میں اس وقت اجتجاج کیا اور پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا یہ کویی دو سال الیکشنز سے ہیلے کی بات ہے جب لوگ پارٹی کی طرف بھاگ رہے تھے ہم الوداع کہر رہے تھے یہ کہتے ہویے کہ وہی چور، وہی کرپٹ، وہی مفاد پرست، وہی موقع پرست، وہی وڈیرے، وہی جاگیردار اور وہی بدمعاش جو پی پی پی، ایم کیو ایم، قاف لیگ اور نون لیگ میں تھے آج عمران خان کے بھی ساتھی ہو گیے

 اور پھر میری ملاقات ہویی میاں اسلم صاحب سے جو کہ جماعت اسلامی کے امیدوار تھے حلقہ این اے 48 یعنی میرے حلقے سے ان کی شخصیت نے متاثر کیا اور پھر جماعت کے ساتھیوں سے میل جول ہوا تو سمجھ آیی کے جمہوریت کہتے کسے ہیں جہاں ہر چھوٹے بڑے کی بات کو پورے انہماک سے سنا جاتا ہے اور اس کے شکوے شکایت کو بھی دور کیا جاتا ہے جہاں نظم وضبظ اور تنظیم سکھایی جاتی ہے جہاں زمہ داری کا احساس آپ کے اندر ابھارا جاتا ہے جہاں خدمت کو شعار اور محنت کو پیمانہ کہا جاتا ہے جہاں تقوی اور دامن کی شفافیت پر آپ کا رتبہ اور درجات بڑھتے ہیں - سو آج کے دن میرا تعلق جماعت اسلامی سے ہے مگر آج سوچتا ہوں کہ "کاش میں نے یہ فیصلہ بہت پہلے کر لیا ہوتا" خیر دیر آید درست آید 

پاکستان میں سیاسی انتہا پسندی اپنے عروج پر - Pakistan's Political Dimensions

پاکستان میں صرف 3 ہی طرح کے لوگوں کا قبضہ ہے
 ایک وہ جو شخصیت پرستی کے قایل ہیں اور وہ اپنے اس فعل میں انتہا پر ہیں اور کسی دوسرے کی بات سننے کے بھی روادار نہیں اور اپنی پسندیدہ شخصیت کے ہر جایز اور ناجایز عمل کو بھی جھوٹ اور لفاظی کے زریعے سچا اور جایز ثابت کرنے کی لا حاصل مگر گناہ سے بھرپور سعی کرتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہر کسی نے اپنی اور صرف اپنی قبر میں جانا ہے اور جس شخصیت کی خاطر وہ اپنا آج اپنی کل [آخرت] کی خاطر  تیاگ رہے ہیں وہ ان کے کسی کام نہیں آنا بلکہ
روز محشر وہ صاف مکر جایے گا


دوسرے وہ لوگ جو ہر سنی سنایی کو بنا کسی تحقیق کے آگے بڑھا دیتے ہیں اور یہ سب موقع پرست ہیں جس طرف کی ہوا چل رہی ہوتی ہے یہ اسی طرف ہوتے ہیں مگر یہ ہوتے بہت خطرناک ہیں کیونکے ان کے پاس دلیل نہیں ہوتی مگر دھونس خوب جماتے ہیں ان سے آپکو اپنی عزت بچا کر چلنا پڑتا ہے
تیسرے وہ لوگ جو  علم والے ہیں اور جانتے ہیں مگر انکی بات میں اب وزن نہیں رہا کیونکہ انسان ہونے کے ناطے یہ بھی اسی بھیڑ چال میں کبھی کبھی بہہ جاتے ہیں شاید یہ سوچ کر کے پہلے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جایے اور پھر انکو سچ اور حق کی جانب موڑا جایے حالانکہ یہ لوگ حق کے قریب ہوتے ہیں مگر ان کی بات میں اثر ختم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اس تیزی کے ماحول میں کویی انکی نہ تو سنتا ہے اور نہ ہی مانتا ہے اس وقت تک جب تک کہ وہ اپنے دماغ کو آرام دیکر اسکو کسی دباو یا شخصیت پرستی کی خول سے باہر نکل کر سوچنے کا موقع نہیں دیتے
میں سمجھتا ہوں کی پاکستان کے دن بدلنے والے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ہمیں کویی ایسا رہنما ملے گا جو ہمیں تقسیم کرنے کی بجایے ایک کرے گا اور میں نہیں سمجھتا کہ عمران خان وہ لیڈر ہے مگر کویی اور جو ہمارے سامنے ہے مگر ہم اسے جانتے نہیں وہ دن دور نہیں کیونکہ اس مادی دنیا کے سارے بت ایک ایک کر کے پاش پاش ہورہے ہیں اور خود اپنی قبریں کھود رہے ہیں اور ان سب کو بہت ہی جلدی ہے یا یہ لوگ بہت جلدی میں ہیں

Aziz-e-Jahan - A book about Qazi Hussain Ahmed



صدیوں سے یہی ہوتا آرہا ہے - روزانہ لاکھوں لوگ آتے ہیں، دنیا میں وقت گزارتے ہیں اور چلے جاتے ہیں- ان کے آنے سے دنیا میں کویی تبدیلی آتی ہے نہ ہی ان کے جانے پر چند عزیزوں کے سوا کسی کی آنکھ برستی ہے لیکن بعض لوگ کتنے خوش قسمت واقع ہوتے ہیں - وہ دنیا میں آتے ہیں تو اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں - وہ جتنا عرصہ جیتے ہیں ایک دنیا کو ساتھ لیکر، اور دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو کروڑوں دلوں کو غمزدہ کر کے-
قاضی حسین احمد انہی لوگوں میں سے تھے، جنکی زندگی سعادت کی تھی اور جن کا رخصت ہو جانا غمگین کر دینے والا تھا- قاضی حسین احمد نے اپنی کردار اور اخلاق سے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا اور کروڑوں دلوں میں اپنے لیے جگہ بنایی-
قاضی حسین احمد حقیقت میں میں "عزیز جہاں" ٹھرے- انکی محبت سرحدوں اور زبان و نسل سے مورا تھی - انھوں نے بلا تفریق اپنی محبتیں نچھاور کیں اور نتیجے میں وہ "عزیز جہاں" ٹھرے۔
آج قاضی حسین احمد ہم میں نہیں مگر انکی یادیں زندہ ہیں ۔ اور یہ کتاب انہی خوبصورت یادوں پر مشتمل ایک خراج عقیدت ہے-
میں نے یہ کتاب ابھی پڑھنا شروع کی ہے اور یقین جانیے کہ اسکا پہلا باب ہی اتنا مسحورکن ہے کہ دل چاہ رہا ہے کہ آج ہو اسکو مکمل پڑھ لوں۔
کوشش کروں گا کہ اس میں سے کچھ چیدہ چیدہ اقتباسات اپنے دوستوں کے سامنے وقتا فوقتا پیش کرتا رہوں

Is Politics and Islam can be practiced at the same time?

جدا ہو دین سیاست سے!
علامہ کا یہ معروف شعر پڑھتے ہی ذہن میں مسلم معاشرے کے لیے دین و دنیا کی وحدت و یکتائی کا احساس پیدا ہوتا ہے مگر یہاں ہماری مراد اس شعر کے دوسرے مصرعے کے نصف اول کا اثباتی و ایجابی مفہوم ہے کہ ہمارے معاشرے میں دین و سیاست جس طرح اب قریب ہو رہے ہیں کاش یہ ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں اور ان کی یکتائی، وحدت اور قربت کا جو اسلوب بن رہا ہے وہ آگے نہ پنپے۔
سیاست اور دین کی قربت کے کئی مفاہیم ہیں۔ جو قابل تعریف بھی ہیں اور قابل احتراز بھی۔ تاہم ان میں سے ایک پہلو دینی تصورات، اصطلاحات اور کلمات کا سیاست میں محض سیاسی اور وقتی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال ہے۔ اگر تو یہ رویہ ایک وقتی اور عمومی روش کی حد تک رہتا تو نظر انداز کیا جا سکتا تھا مگر جب یہ رویہ ملک کے اعلیٰ ترین سیاسی منصبوں پر فائز شخصیات بشمول صدر اور وزیر اعظم کے ہاں نظر آنے لگے تو اس کے اسباب اور اثرات کی زیر غور لانا ضروری ہو جاتا ہے کچھ عرصہ قبل سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ سیاسی معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے کہ انہیں ایسا ہی تقدس اور اہمیت دی جائے۔ حال ہی میں موجودہ سیلاب کے بحران کے دوران جھنگ کے علاقے جنڈیانہ میں خطاب کے دوران وزیر اعظم نے کہا کہ قومی خزانے میں خورد برد کرنا ہمارے نزدیک حرام ہے۔ وزیر اعظم کے بیان میں "حرام" کے لفظ کے استعمال کا اثر تھا کہ اگلے دن یعنی 12 اکتوبر 2014ء کے اکثر اخبارات نے اسے شہ سرخی کے طور پر شائع کیا۔ صاف ظاہر ہے کہ ملک میں جاری سیاسی بیانیے کی شدت سے متاثر ہو کر یا اس شدت کے اثر کو کم کرنے کے لیے وزیر اعظم نے بھی اسی لہجے اور انہی کلمات میں خطاب کیا۔ جبکہ ان کی عمومی گفتگو اور اس سے پہلے کی تقریروں میں اس طرح کا لہجہ نظر نہیں آتا۔
وزیر اعظم کی طرف سے اپنی تقریر میں اپنے یا اپنی کابینہ کے کسی عمل کو حرام قرار دینا اس لیے بھی صد بار قابل غور امر ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق حرام کے لفظ کی معنویت ہم سے زندگی میں کمال احتیاط کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر ہم کسی عمل کو حرام قرار دیتے ہیں اور شعوری طور پر اسے حرام سمجھتے ہیں اور پھر بھی اس کا ارتکاب کرتے ہیں تو قرآن حکیم نے سورہ توبہ کی آیت 37 میں اس طرز عمل کو فیُحِلوا مَا حَرمَ اللہُ )پس یہ لوگ اس بات کو حلال قرار دے لیتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے( فرما کر اسے کفار کا کردار قرار دیا ہے۔ اور پھر حرام کا ارتکاب حدود اللہ کی پامالی کے مترادف ہے۔ جس کا انجام انفرادی اور قومی سطح پر تباہی اور بربادی ہے۔ )ملاحظہ ہو سورہ الطلاق، آیت۱ (
موجودہ سیاست کو بغیر کسی احتیاط اور احساس ذمہ داری کے مذہبی کلمات اور اصطلاحات کے استعمال کاتحفہ مذہبی سیاستدانوں نے دیا کہ وہ اصطلاحات اور کلمات جن کے ساتھ دینی حرمت، تقدس اور معنویت وابستہ تھی اسے سیاسی بیانیہ کا حصہ بنا دیا۔ کربلا، یزید، کافر، طاغوت، قبر، کفن، حرام، واجب، طلاق اور جنازہ اور اس طرح کے کتنے ہی الفاظ ہیں جو مذہبی سیاست کے روزن سے ملک کی معمول کی سیاست کے میدان میں بتدریج داخل ہو رہے ہیں اور پھر اس کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اس رویے پر اس لیے بھی نظرثانی کرنا ضروری ہے کہ ان الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہم ایک مسلمان معاشرے کا حصہ ہیں اور ہماری جدوجہد بھی اس معاشرے کے مختلف طبقوں اور افراد کے ساتھ یا ان کے خلاف ہے۔ اگر تو یہ سیاسی جدوجہد ایک کافرانہ معاشرے میں ہوتی اور مسلم سیاستدانوں کے مقابل غیر مسلم اور کافر مخالفین ہوتے تو شایدپھر اس لہجے کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا تھا۔ جبکہ موجودہ صورت میں اس سے دو بڑے نقصان ہونا لازمی ہیں:
اولاً یہ کہ اس لہجے اور مذہبی انداز میں سیاسی ما فی الضمیر کو بیان کرنے سے معاشرہ سیاسی انتہا پسندی کا شکار ہو جائے گا۔ مذہبی قائدین اپنی نیک نیتی کے باوجود جن مقاصد کے لیے اس لہجے کو اپنا رہے ہیں ان مقاصد کا حاصل ہونا تو یقینی نہیں مگر یہ امر ضرور یقنی ہے کہ ان کی جماعتوں کے کارکن اور پیروکار اپنے سیاسی مخالفین کو مذہبی اور دینی مخالفین سمجھیں گے اور ان سے مذہبی جذبے کی حامل جس سیاسی انتہا پسندی کا رویہ اپنائیں گے وہ ہمارے معاشرے کو سماجی و معاشرتی برداشت اور اعتدال و توازن سے مستقل طور پر محروم کر دے گا۔
ثانیاً یہ کہ ہر مذہبی اصطلاح کے ساتھ ایک حرمت اور تقدس وابستہ ہوتا ہے جب ان اصطلاحات اور الفاظ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا اس سے سیاسی جدوجہد اور طرز عمل میں کوئی احتیاط، تقدس یا حرمت کی روح پیدا ہو یا نہ ہو مذہبی حوالے سے تقدس اور حرمت کا پہلو ضرور مسخ اور مجروح ہو گا اور ظاہر ہے اس سے معاشرہ جس اخلاقی بحران اور دینی نقصان کا شکار ہو گا، اس کا ازالہ بہت مشکل ہو گا۔ کیونکہ خرابی پیدا تو فوراً ہوتی ہے مگر اس کا ازالہ بعض اوقات کئی نسلوں میں کرنا بھی محال ہوتا ہے۔
یہاں تحریک پاکستان کے قائدین کو بھی خراج تحسین پیش کرنے کو جی چاہتا ہے کہ باوجود ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہوئے جس کے خلاف وہ حقیقتاً ایک نظریاتی، تہذیبی اور دینی جدوجہد کر رہے تھے اتنے وفور اور کثرت کے ساتھ انہوں نے مذہب کا استعمال نہیں کیا جس فراخ دلی اور اسراف سے آج ہم ایک مسلم معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے کر رہے ہیں اور اگر ہماری یہی روش جاری رہی تو اس امکان کو رد کرنا محال ہو جائے گا کہ قرآن حکیم کی آیات و تعلیمات کا اطلاق و انطباق بے محل ہونے لگے۔ خدا نخواستہ نوبت یہاں تک پہنچی تو قرآن حکیم کے الفاظ میں ہمیں اس عمل کے نتیجے میں تین طرح کی عقوبت سے دوچار ہونا پڑے گا۔
"---- وہ لوگ جو )اللہ کی کتاب کے( الفاظ کا موقع محل طے ہو جانے کے بعد بھی ان میں تحریف کرتے ہیں ------ یہ وہ لوگ ہیں کہ )ان کی نافرمانی کی وجہ سے( اللہ نے ان کے دلوں کو پاک کرنے کا ارداہ نہیں کیا، ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور ان کے لیے آخرت میں زبردست عذاب ہے۔" )المائدہ:۴۱ (
دین و سیاست کے ایک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سیاست دین کی عطا کی ہوئی اقدار اور معیار کی پابند ہو، اس میں دیانت، سچائی، شفافیت ، ایفائے عہد اور ذاتی مفاد کو قومی اور اجتماعی مفاد پر قربان کرنے کا طرز عمل موجود ہو نہ یہ کہ دینی تصورات کی آڑ میں سیاسی مقاصد کے حصول کو نصب العین بنا لیا جائے اور سادہ لوح عوام کا دین کے نام پر استحصال کیا جائے۔
آج ہمیں اپنے سیاسی قائدین خصوصاً مذہب کے پس منظر کے ساتھ سیاست کرنے والے قائدین سے یہ بجا طور پر کہنا ہے کہ وہ قوم کے سیاسی، معاشی ور انتظامی مسائل کے حل کے لیے ضرور کوشش کریں اور نتیجہ خیز کوشش کریں مگر اس سے بڑھ کر ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم کو ہر حوالے سے خصوصاً مذہبی و دینی حوالے سے مسخ شدہ اور عدم برداشت و عدم اعتدال پر مبنی رویوں سے محفوظ رکھنے کی سعی بھی کریں تاکہ ان کی کسی ہنگامی سیاسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کیے گئے اقدام سے معاشرہ اجتماعی اخلاقیات سے محروم نہ ہو۔ (ڈاکٹر طاہر حمید تنو لی)