آج میں اپنے ایک دوست اور جماعت کے بھایی واقر کی ایک تحریر آپکے ساتھ شیر کرنا چاہتا ہوں جس میں وہ اپنے لیڈر سے کیا ڈیمانڈ کرتے ہیں اسکے بارے میں اظہارخیال کیا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ایک بھایی نے انکی اس آرزو پر ایک سوال اٹھایا اسکا جواب میں خود دوں گا تو پہلے وقار بھایی کا اپنے لیڈر کے بارے میں خاکہ سنیے :
اسلام و علیکم!
آج گلو بٹ کو گیارہ سال کی قید ہو گئی مبارک ہو
کچھ لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ صرف گاڑی توڑنے پر گیارہ سال قید اور اتنی جلدی فیصلہ لیکن چودہ انسانوں کے قتل کا فیصلہ تو اس سے بھی جلدی آنا چاہیے تھا اور مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے تھی لیکن کیا ہوا؟
یہاں ہم سارا ملبہ عوام اور نظام پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے، گلو بٹ اسی ملک کا شہری ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ شائد گیارہ ماہ بھی جیل میں نہ گزارے
یہاں ہم سارا ملبہ عوام اور نظام پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے، گلو بٹ اسی ملک کا شہری ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ شائد گیارہ ماہ بھی جیل میں نہ گزارے
جب لوگ سیاسی لوگوں کو بچانے میں مارے جاتے ہیں تو اس بات کے قطع نظر کہ وہ شہید ہیں یا کیا ہیں، انصاف کے طلبگار ضرور ہوتے ہیں لیکن انصاف ملتا نہیں، بس کارکنان کی شہادت کو سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا، ہم ان کے قاتلوں کی گرفتاری تک سکون سے نہیں بیٹھیں گے کے گرم گرم جملے سننے کو ملیں گے اور چند دنوں یا کچھ عرصے بعد سب بھول بھال گیا
میں کراچی میں سیکورٹی کی جاب کرتا تھا تو میں جب اسکارٹ جاتا تھا تو میرے پاس دس گولیاں ہوتی تھیں میں اپنی کمپنی انچارج کو کہتا، سر گولیاں زیادہ دیں میرے ساتھ افسر 20، 25 ہوتے ہیں کوئی حملہ ہو گیا تو میں کیسے دفاع کروں گا تو جواب آتا تھا کہ دیکھو تمہیں افسروں کی نہیں جس بس میں تم جاتے ہو اس کی حفاظت کے لیئے رکھا جاتا ہے، میں نے سوال کیا ایک افسر لاکھوں کی تنخواہ لیتا ہے قیمتی شخص ہے لیکن آپ کو چند لاکھ کی گاڑی کی پڑی ہے اور میری انہی باتوں کی وجہ سے مجھے نکال دیا گیا، ہم انسانوں پر گاڑیوں کو فوقیت دینے والے لوگ ہیں
جیسے گلو بٹ کسی کا غلام ہے ویسے ہی وہ چودہ مرنے والے بھی کسی کے غلام ہیں بس فرق یہ ہے کہ انہوں نے صرف ایک گلو کو سزا کروا کر سب کو بچا لیا ہے اور یہ چودہ معصوموں کا اصل مقدمہ صرف ڈرپوک، اور جلد باز لیڈر کی وجہ سے ہار گئے، جب آپ خود کینٹینر میں ہوں گے اور عام لوگ سڑک پر تو سیکورٹی آپ کا حق ہے آپ کی عوام کا نہیں اور افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ حق عوام ہی ان کو دیتی ہے لیکن ان سے سوال کرنے کی طاقت نہیں رکھتی، میری خواہش ہے کہ کوئی ایسا آئے جو عوام کو سمجھا سکے کہ تمہارا لیڈر تو وہ ہے جو خود کھائے وہ تمہیں کھلائے اس کی تنخواہ ایک مزدور سے زیادہ نہ ہو وہ اگر ایک چادر عام آدمی کو دیتا ہے تو خود بھی ایک چادر لے نہ کہ اپنے حق سے تجاوز کرے، نظام کو نہیں برے لوگوں کو روئیں جن کی وجہ سے یہ نظام مضبوط ہوتا ہے اور عوام ان برے لوگوں کو جاننے کے باوجود ان کے منہ پر بولنے کی جرات نہیں رکھتی۔
اس پر ہمارے ایک دوست سلیم خان صاحب نے ایک سوال اٹھایا کہ
آپ خوابوں کی دنیا سے نکل کر اصلی دنیا میں آ جاییں پلیز - ویسے اگر ایسا ہو جایے تو وطن عزیز بہت ہی بہتر طریقے سے چلے گا
میرا انکے لیے جواب یہ ہیکہ -
سلیم بھایی جو خواب نہیں دیکھتا وہ جمود کا شکار ہوتا ہے اور جمود کا شکار صرف اور صرف انسان کو کولہو کا بیل بناتا ہے اشرف المخلوقات نہیں - آج انسان ہواوں میں اڑتا پھرتا ہے مگر ایک وقت تھا جب ایسا خواب دیکھنے والوں کو پاگل کہا جاتا تھا آج انسان ہوا کے دوش پر دنیا کے ایک سے سے دوسرے سرے پر موجود اپنے پیاروں سے ایسے بات کرتا ہے
جیسے وہ سامنے بیٹھا ہو مگر کبھی ان خوابوں کو دیکھنے والوں کو بھی پاگل کہا جاتا تھا-
جس خواب کی بات وقار بھایی نے کی وہ خواب تو آج سے چودہ سو سال پہلے حقیقت کا روب دھار چکا ہے آج تو ہمیں اسکے احیا کی سعی کرنی ہے - میرا لیڈر تو جنگ میں سب سے آگے ہو کر لڑتا تھا اور اپنے دندان مبارک شہید کرواکر بھی اف نہیں کرتا تھا - وہ خود پیٹ پر پہلے پتھر باندھتا تھا بعد میں اپنے ماننے والے کو کہتا تھا - میرا تو خلیفہ ایسا تھا جو مسجد کی زمیں پر سوتا تھا بنا کسی تکیے کے - میرا خلیفہ میرا لیڈر تو اونٹ پر سواری بھی اپنے غلام کے ساتھ برابری کی بنیاد پر کرتا تھا
- ہمارے لیڈر کے کرتے پر چودہ پیوند لگے ہوتے تھے حالانکہ وہ قیصر و کسری کا فاتح تھا
تو بھایی میرے خواب نہیں ہم تو اصل حقیقت کی بات کرتے ہیں جہاں انسان انسان کے برابر ہوتا ہے اور سب کے لیے قانون یکساں تھا اور لوگ عوام نہیں بلکہ حاکم تھے
No comments:
Post a Comment