جدا ہو دین سیاست سے!
علامہ کا یہ معروف شعر پڑھتے ہی ذہن میں مسلم معاشرے کے لیے دین و دنیا کی وحدت و یکتائی کا احساس پیدا ہوتا ہے مگر یہاں ہماری مراد اس شعر کے دوسرے مصرعے کے نصف اول کا اثباتی و ایجابی مفہوم ہے کہ ہمارے معاشرے میں دین و سیاست جس طرح اب قریب ہو رہے ہیں کاش یہ ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں اور ان کی یکتائی، وحدت اور قربت کا جو اسلوب بن رہا ہے وہ آگے نہ پنپے۔
سیاست اور دین کی قربت کے کئی مفاہیم ہیں۔ جو قابل تعریف بھی ہیں اور قابل احتراز بھی۔ تاہم ان میں سے ایک پہلو دینی تصورات، اصطلاحات اور کلمات کا سیاست میں محض سیاسی اور وقتی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال ہے۔ اگر تو یہ رویہ ایک وقتی اور عمومی روش کی حد تک رہتا تو نظر انداز کیا جا سکتا تھا مگر جب یہ رویہ ملک کے اعلیٰ ترین سیاسی منصبوں پر فائز شخصیات بشمول صدر اور وزیر اعظم کے ہاں نظر آنے لگے تو اس کے اسباب اور اثرات کی زیر غور لانا ضروری ہو جاتا ہے کچھ عرصہ قبل سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ سیاسی معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے کہ انہیں ایسا ہی تقدس اور اہمیت دی جائے۔ حال ہی میں موجودہ سیلاب کے بحران کے دوران جھنگ کے علاقے جنڈیانہ میں خطاب کے دوران وزیر اعظم نے کہا کہ قومی خزانے میں خورد برد کرنا ہمارے نزدیک حرام ہے۔ وزیر اعظم کے بیان میں "حرام" کے لفظ کے استعمال کا اثر تھا کہ اگلے دن یعنی 12 اکتوبر 2014ء کے اکثر اخبارات نے اسے شہ سرخی کے طور پر شائع کیا۔ صاف ظاہر ہے کہ ملک میں جاری سیاسی بیانیے کی شدت سے متاثر ہو کر یا اس شدت کے اثر کو کم کرنے کے لیے وزیر اعظم نے بھی اسی لہجے اور انہی کلمات میں خطاب کیا۔ جبکہ ان کی عمومی گفتگو اور اس سے پہلے کی تقریروں میں اس طرح کا لہجہ نظر نہیں آتا۔
وزیر اعظم کی طرف سے اپنی تقریر میں اپنے یا اپنی کابینہ کے کسی عمل کو حرام قرار دینا اس لیے بھی صد بار قابل غور امر ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق حرام کے لفظ کی معنویت ہم سے زندگی میں کمال احتیاط کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر ہم کسی عمل کو حرام قرار دیتے ہیں اور شعوری طور پر اسے حرام سمجھتے ہیں اور پھر بھی اس کا ارتکاب کرتے ہیں تو قرآن حکیم نے سورہ توبہ کی آیت 37 میں اس طرز عمل کو فیُحِلوا مَا حَرمَ اللہُ )پس یہ لوگ اس بات کو حلال قرار دے لیتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے( فرما کر اسے کفار کا کردار قرار دیا ہے۔ اور پھر حرام کا ارتکاب حدود اللہ کی پامالی کے مترادف ہے۔ جس کا انجام انفرادی اور قومی سطح پر تباہی اور بربادی ہے۔ )ملاحظہ ہو سورہ الطلاق، آیت۱ (
موجودہ سیاست کو بغیر کسی احتیاط اور احساس ذمہ داری کے مذہبی کلمات اور اصطلاحات کے استعمال کاتحفہ مذہبی سیاستدانوں نے دیا کہ وہ اصطلاحات اور کلمات جن کے ساتھ دینی حرمت، تقدس اور معنویت وابستہ تھی اسے سیاسی بیانیہ کا حصہ بنا دیا۔ کربلا، یزید، کافر، طاغوت، قبر، کفن، حرام، واجب، طلاق اور جنازہ اور اس طرح کے کتنے ہی الفاظ ہیں جو مذہبی سیاست کے روزن سے ملک کی معمول کی سیاست کے میدان میں بتدریج داخل ہو رہے ہیں اور پھر اس کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اس رویے پر اس لیے بھی نظرثانی کرنا ضروری ہے کہ ان الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہم ایک مسلمان معاشرے کا حصہ ہیں اور ہماری جدوجہد بھی اس معاشرے کے مختلف طبقوں اور افراد کے ساتھ یا ان کے خلاف ہے۔ اگر تو یہ سیاسی جدوجہد ایک کافرانہ معاشرے میں ہوتی اور مسلم سیاستدانوں کے مقابل غیر مسلم اور کافر مخالفین ہوتے تو شایدپھر اس لہجے کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا تھا۔ جبکہ موجودہ صورت میں اس سے دو بڑے نقصان ہونا لازمی ہیں:
اولاً یہ کہ اس لہجے اور مذہبی انداز میں سیاسی ما فی الضمیر کو بیان کرنے سے معاشرہ سیاسی انتہا پسندی کا شکار ہو جائے گا۔ مذہبی قائدین اپنی نیک نیتی کے باوجود جن مقاصد کے لیے اس لہجے کو اپنا رہے ہیں ان مقاصد کا حاصل ہونا تو یقینی نہیں مگر یہ امر ضرور یقنی ہے کہ ان کی جماعتوں کے کارکن اور پیروکار اپنے سیاسی مخالفین کو مذہبی اور دینی مخالفین سمجھیں گے اور ان سے مذہبی جذبے کی حامل جس سیاسی انتہا پسندی کا رویہ اپنائیں گے وہ ہمارے معاشرے کو سماجی و معاشرتی برداشت اور اعتدال و توازن سے مستقل طور پر محروم کر دے گا۔
ثانیاً یہ کہ ہر مذہبی اصطلاح کے ساتھ ایک حرمت اور تقدس وابستہ ہوتا ہے جب ان اصطلاحات اور الفاظ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا اس سے سیاسی جدوجہد اور طرز عمل میں کوئی احتیاط، تقدس یا حرمت کی روح پیدا ہو یا نہ ہو مذہبی حوالے سے تقدس اور حرمت کا پہلو ضرور مسخ اور مجروح ہو گا اور ظاہر ہے اس سے معاشرہ جس اخلاقی بحران اور دینی نقصان کا شکار ہو گا، اس کا ازالہ بہت مشکل ہو گا۔ کیونکہ خرابی پیدا تو فوراً ہوتی ہے مگر اس کا ازالہ بعض اوقات کئی نسلوں میں کرنا بھی محال ہوتا ہے۔
یہاں تحریک پاکستان کے قائدین کو بھی خراج تحسین پیش کرنے کو جی چاہتا ہے کہ باوجود ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہوئے جس کے خلاف وہ حقیقتاً ایک نظریاتی، تہذیبی اور دینی جدوجہد کر رہے تھے اتنے وفور اور کثرت کے ساتھ انہوں نے مذہب کا استعمال نہیں کیا جس فراخ دلی اور اسراف سے آج ہم ایک مسلم معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے کر رہے ہیں اور اگر ہماری یہی روش جاری رہی تو اس امکان کو رد کرنا محال ہو جائے گا کہ قرآن حکیم کی آیات و تعلیمات کا اطلاق و انطباق بے محل ہونے لگے۔ خدا نخواستہ نوبت یہاں تک پہنچی تو قرآن حکیم کے الفاظ میں ہمیں اس عمل کے نتیجے میں تین طرح کی عقوبت سے دوچار ہونا پڑے گا۔
"---- وہ لوگ جو )اللہ کی کتاب کے( الفاظ کا موقع محل طے ہو جانے کے بعد بھی ان میں تحریف کرتے ہیں ------ یہ وہ لوگ ہیں کہ )ان کی نافرمانی کی وجہ سے( اللہ نے ان کے دلوں کو پاک کرنے کا ارداہ نہیں کیا، ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور ان کے لیے آخرت میں زبردست عذاب ہے۔" )المائدہ:۴۱ (
دین و سیاست کے ایک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سیاست دین کی عطا کی ہوئی اقدار اور معیار کی پابند ہو، اس میں دیانت، سچائی، شفافیت ، ایفائے عہد اور ذاتی مفاد کو قومی اور اجتماعی مفاد پر قربان کرنے کا طرز عمل موجود ہو نہ یہ کہ دینی تصورات کی آڑ میں سیاسی مقاصد کے حصول کو نصب العین بنا لیا جائے اور سادہ لوح عوام کا دین کے نام پر استحصال کیا جائے۔
آج ہمیں اپنے سیاسی قائدین خصوصاً مذہب کے پس منظر کے ساتھ سیاست کرنے والے قائدین سے یہ بجا طور پر کہنا ہے کہ وہ قوم کے سیاسی، معاشی ور انتظامی مسائل کے حل کے لیے ضرور کوشش کریں اور نتیجہ خیز کوشش کریں مگر اس سے بڑھ کر ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم کو ہر حوالے سے خصوصاً مذہبی و دینی حوالے سے مسخ شدہ اور عدم برداشت و عدم اعتدال پر مبنی رویوں سے محفوظ رکھنے کی سعی بھی کریں تاکہ ان کی کسی ہنگامی سیاسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کیے گئے اقدام سے معاشرہ اجتماعی اخلاقیات سے محروم نہ ہو۔ (ڈاکٹر طاہر حمید تنو لی)
No comments:
Post a Comment